بے کسی میں یہی ہوں پاس کہیں
میں کہیں ہوں مرے حواس کہیں
میں تجھے با وفا سمجھتا ہوں
نہ غلط ہو مرا قیاس کہیں
کعبہ و دیر میں تو ڈھونڈھ چکے
وہ نہ ہو دل کے آس پاس کہیں
یہ خلاصہ ہے دفتر غم کا
کہیں شکوہ ہے التماس کہیں
نوحؔ جائیں گے بزم یار میں ہم
شوق سے بڑھ کے ہے ہراس کہیں
غزل
بے کسی میں یہی ہوں پاس کہیں
نوح ناروی