EN हिंदी
بے کسی میں یہی ہوں پاس کہیں | شیح شیری
be-kasi mein yahi hun pas kahin

غزل

بے کسی میں یہی ہوں پاس کہیں

نوح ناروی

;

بے کسی میں یہی ہوں پاس کہیں
میں کہیں ہوں مرے حواس کہیں

میں تجھے با وفا سمجھتا ہوں
نہ غلط ہو مرا قیاس کہیں

کعبہ و دیر میں تو ڈھونڈھ چکے
وہ نہ ہو دل کے آس پاس کہیں

یہ خلاصہ ہے دفتر غم کا
کہیں شکوہ ہے التماس کہیں

نوحؔ جائیں گے بزم یار میں ہم
شوق سے بڑھ کے ہے ہراس کہیں