بے حسی انسان کا حاصل نہ ہو
دوستی ہو ریت کا ساحل نہ ہو
میں تو بس یہ چاہتا ہوں وصل بھی
دو دلوں کے درمیاں حائل نہ ہو
مجھ کو تنہا چھوڑنے والے بتا
کیا کروں جب دل تری محفل نہ ہو
کس طرح میری زباں تک آئے گا
حرف جو سچائی کا حامل نہ ہو
یہ زمانہ چاہتا ہے آج بھی
خون دل تحریر میں شامل نہ ہو
جس طرف لے جا رہی ہے زندگی
اس طرف بھی کوچۂ قاتل نہ ہو
آدمیت کے لئے یہ شرط ہے
آدمی کچھ ہو مگر سائل نہ ہو
غزل
بے حسی انسان کا حاصل نہ ہو
آغاز برنی