بے حجاب آپ کے آنے کی ضرورت کیا تھی
یوں مرے ہوش اڑانے کی ضرورت کیا تھی
ہم سے کہنا تھا ڈبو دیتے سفینہ اپنا
اتنے طوفان اٹھانے کی ضرورت کیا تھی
جب سے آیا ہوں یہاں مہر بہ لب بیٹھا ہوں
مجھ کو محفل میں بلانے کی ضرورت کیا تھی
اپنے کردار و عمل پر جو بھروسہ ہوتا
آپ کے ناز اٹھانے کی ضرورت کیا تھی
یوں بھی ہو سکتے تھے آباد ترے ویرانے
ہم کو دیوانہ بنانے کی ضرورت کیا تھی
اشک خوں بعد میں سرشارؔ بہانے تھے اگر
خون عشاق بہانے کی ضرورت کیا تھی
غزل
بے حجاب آپ کے آنے کی ضرورت کیا تھی
جیمنی سرشار