بے حقیقت دوریوں کی داستاں ہوتی گئی
یہ زمیں مثل سراب آسماں ہوتی گئی
کس خرابی میں ہوا پیدا جمال زندگی
اصل کس نقل مکاں میں رائیگاں ہوتی گئی
تنگئ امروز میں آئندہ کے آثار ہیں
ایک ضد بڑھ کر کسی سکھ کا نشاں ہوتی گئی
دوسرے رخ کا پتہ جس کو تھا وہ خاموش تھا
وہ کہانی بس اسی رخ سے بیاں ہوتی گئی
اک صدا اٹھی تو اک عالم ہوا پیدا منیرؔ
اک کلی مہکی تو پورا گلستاں ہوتی گئی
غزل
بے حقیقت دوریوں کی داستاں ہوتی گئی
منیر نیازی