بے گناہی کا ہر احساس مٹا دے کوئی
مجھ کو اس دور میں جینے کی سزا دے کوئی
نقش یادوں کے سبھی دل سے مٹا دے کوئی
ہوش میں ہوں مجھے دیوانہ بنا دے کوئی
کوئی اس شہر میں سنتا نہیں دل کی آواز
کس توقع پہ کہیں جا کے صدا دے کوئی
آج بھی جن کو ہے اپنوں سے وفا کی امید
میری تصویر انہیں جا کے دکھا دے کوئی
میرا ماضی مجھے کیا جانے کہاں چھوڑ گیا
میں کہاں دفن ہوں اتنا تو بتا دے کوئی
غیرت دست طلب بات تو جب ہے تیری
اپنا دامن ہی تری سمت بڑھا دے کوئی
ہوش والوں نے تو کر رکھا ہے دنیا کو تباہ
مجھ کو اس دور میں دیوانہ بنا دے کوئی
توبہ تو کی ہے مگر اب بھی یہ حسرت ہے شمیمؔ
دے کے قسمیں مجھے اک بار پلا دے کوئی
غزل
بے گناہی کا ہر احساس مٹا دے کوئی
شمیم جے پوری