بے گناہ قتل ہوتے جاتے ہیں
صبر کا امتحان ہے شاید
مرنے والوں کو بھول جاتے ہیں
جان ہے تو جہان ہے شاید
وہ کبھی میرے دل میں رہتے ہیں
یہ بھی ان کا مکان ہے شاید
اپنی ہستی بھی یاں ہے کوئی چیز
ایک وہم و گمان ہے شاید
ہے جو ہر شے میں ہر جگہ موجود
وہ خدا بے نشان ہے شاید
شیخ حوروں پہ جان دیتے ہیں
دل ابھی تک جوان ہے شاید
جن کا پھیکا ہے بے مزہ پکوان
ان کی اونچی دکان ہے شاید
غزل
بے گناہ قتل ہوتے جاتے ہیں (ردیف .. د)
میر یٰسین علی خاں