بے گھری کا اپنی یہ اظہار کم کر دیجیے
شعر میں ذکر در و دیوار کم کر دیجیے
اپنی تنہائی میں اتنا بھی خلل اچھا نہیں
آپ اپنے آپ سے گفتار کم کر دیجیے
دشمنوں کی خود بہ خود ہو جائے گی تعداد کم
یاروں کی فہرست میں کچھ یار کم کر دیجیے
جب توجہ ہی نہیں موجودگی کس کام کی
اس کہانی میں مرا کردار کم کر دیجیے
سوچئے اب اتنے چارہ گر کہاں سے آئیں گے
مسکرا کر اپنے کچھ بیمار کم کر دیجیے
آپ کی باتوں میں آ کر جان سے تو جا چکے
اب تو ان میں زہر کی مقدار کم کر دیجیے
غزل
بے گھری کا اپنی یہ اظہار کم کر دیجیے
راجیش ریڈی