بے گھر تھا پھر چھوڑ گیا گھر جانے کیوں
پار کیا ہے سات سمندر جانے کیوں
آنکھیں حیراں دل ویراں ہیں چہرے زرد
چیخ رہا ہے منظر منظر جانے کیوں
آنکھوں میں مظلوموں کے بس آنسو ہیں
فکر میں ہے ہر ایک ستم گر جانے کیوں
تپتی ریت جھلستے سائے تند ہوا
گھر سے نکلا موم کا پیکر جانے کیوں
پھول سا چہرہ جھیل سی اس کی آنکھیں ہیں
یاد آتا ہے مجھ کو اکثر جانے کیوں
آتے جاتے سب سے باتیں کرتا تھا
چپ بیٹھا ہے آج قلندر جانے کیوں
میری غزلیں سن کر انورؔ چاہت سے
دیکھتا ہے ہر ایک سخنور جانے کیوں
غزل
بے گھر تھا پھر چھوڑ گیا گھر جانے کیوں
انور جمال انور