بے فیض عجب نکلی یہ فصل تمنا بھی
پھوٹی نہیں کونپل بھی چٹکا نہیں غنچہ بھی
کیا ہو گیا گلشن کو ساکت ہے فضا کیسی
سب شاخ و شجر چپ ہیں ہلتا نہیں پتا بھی
لو جس سے لگائی تھی وہ آس بھی مدھم ہے
دل جس سے چراغاں تھا بجھتا ہے وہ شعلہ بھی
اس عشق میں کیا کھویا اس درد سے کیا پایا
تم نے نہیں پوچھا بھی ہم نے نہیں سوچا بھی
آنگن ہی میں اب دل کے ہم خاک اڑاتے ہیں
گھر ہی میں نکل آئی گنجائش صحرا بھی
اندھوں کے لیے روؤں بہروں کے لیے گاؤں
ہے ذوق نوا مجھ کو لیکن نہیں اتنا بھی

غزل
بے فیض عجب نکلی یہ فصل تمنا بھی
جمال پانی پتی