EN हिंदी
بے چہرگیٔ عمر خجالت بھی بہت ہے | شیح شیری
be-chehragi-e-umr-e-KHajalat bhi bahut hai

غزل

بے چہرگیٔ عمر خجالت بھی بہت ہے

غضنفر ہاشمی

;

بے چہرگیٔ عمر خجالت بھی بہت ہے
اس دشت میں گرداب کی صورت بھی بہت ہے

آنکھیں جو لیے پھرتا ہوں اے خواب مسلسل!
میرے لیے یہ کار اذیت بھی بہت ہے

تم زاد سفر اتنا اٹھاؤ گے کہاں تک
اسباب میں اک رنج مسافت بھی بہت ہے

دو سانس بھی ہو جائیں بہم حبس بدن میں
اے عمر رواں! اتنی کرامت بھی بہت ہے

کچھ اجرت ہستی بھی نہیں اپنے مطابق
کچھ کار تنفس میں مشقت بھی بہت ہے

اب موت مجھے مار کے کیا دے گی غضنفرؔ
آنکھوں کو تو یہ عالم حیرت بھی بہت ہے