بے اماں شب کا دھواں ڈر کی طرف کھینچتا ہے
ایک نادیدہ سمندر کی طرف کھینچتا ہے
دل کہیں دور بہت دور نکل جاتا ہے
وقت تصویر کے اندر کی طرف کھینچتا ہے
میں کھرچتا ہوں ہتھیلی سے لکیروں کا عذاب
اک ستارا مجھے محور کی طرف کھینچتا ہے
دشت احساس کی شدت سے نکلنا ہے محال
درد بیتے ہوئے منظر کی طرف کھینچتا ہے
چند دھندلائے ہوئے عکس ہیں پس منظر میں
یہ کوئی خواب مجھے گھر کی طرف کھینچتا ہے

غزل
بے اماں شب کا دھواں ڈر کی طرف کھینچتا ہے
راحل بخاری