بے آب و بے گیاہ ہوا اس کو چھوڑ کر
کیسے بجھاؤں پیاس میں پتھر نچوڑ کر
وہ بھی عجیب شام تھی جن ساعتوں کے بیچ
میں بھی بکھر بکھر گیا شیشے کو توڑ کر
میں گھر گیا ہوں رنگ سپید و سیاہ میں
وہ خوش ہے زعفران کی اک شاخ توڑ کر
کچھ اور تیز ہو گئی اندر کی روشنی
اک پل بھی مل سکا نہ سکوں آنکھ پھوڑ کر
اب تک تو شعر گوئی پہ قانع رہا مگر
تو بھی شکیبؔ ایاز کوئی توڑ جوڑ کر
غزل
بے آب و بے گیاہ ہوا اس کو چھوڑ کر
شکیب ایاز