EN हिंदी
بزم سے اپنی جو اس طرح اٹھا دیتے ہیں | شیح شیری
bazm se apni jo is tarah uTha dete hain

غزل

بزم سے اپنی جو اس طرح اٹھا دیتے ہیں

محمد فیض اللہ فیض

;

بزم سے اپنی جو اس طرح اٹھا دیتے ہیں
جانے کس جرم کی یہ لوگ سزا دیتے ہیں

میں نے سوچا تھا ترا غم ہی مجھے کافی ہے
لوگ آتے ہیں مجھے آ کے ہنسا دیتے ہیں

غیر تو غیر ہیں اپنوں کی یہ حالت دیکھی
جن پہ تکیہ کیا وہ لوگ دغا دیتے ہیں

غم سے گھبرا کے کبھی لب پہ جو آتی ہے ہنسی
وہ تصور میں مجھے آ کے رلا دیتے ہیں

اہل دل کو تو یہی کہتے سنا ہے اے فیضؔ
اپنے بیمار کو دامن کی ہوا دیتے ہیں