بزم نشاط و عیش کا ساماں لئے ہوئے
آئی صبا بہار گلستاں لئے ہوئے
اڑتا پھرا جنون یہ ساماں لئے ہوئے
یعنی ہمارے جیب و گریباں لئے ہوئے
کب تک جئے گا دار فنا میں بتا تو دے
سر میں غرور عالم امکاں لئے ہوئے
میرے جنون عشق کی وسعت نہ پوچھئے
ہے ذرہ ذرہ زور بیاباں لئے ہوئے
جس کو اٹھا سکے نہ پہاڑ اور نہ آسماں
وہ بار غم ہیں حضرت انساں لئے ہوئے
میرے لئے تو بحر الم کا یہ حال ہے
جو موج اٹھی وہ آئی ہے طوفاں لئے ہوئے
اک مجمع بہار و خزاں ہے مرا وجود
پھرتا ہوں ساتھ گردش دوراں لئے ہوئے
آساں ہو کیوں نہ اہل تجسس کو راہ شوق
ہیں اپنے ساتھ ذوق فراواں لئے ہوئے
پھیری لگا رہا ہوں خریدار کی ہے فکر
پھرتا ہوں سر پہ میں غم دوراں لئے ہوئے
بہر نیاز ناز ہم آئے ہیں لے کے دل
دل میں ہجوم حسرت و ارماں لئے ہوئے
خوشترؔ مجھے ہے ناز کہ اللہ کے حضور
جاؤں گا دل میں دولت ایماں لئے ہوئے
غزل
بزم نشاط و عیش کا ساماں لئے ہوئے
ممتاز احمد خاں خوشتر کھنڈوی