بزم دنیا جس کو کہتے ہیں وہ پاگل خانہ تھا
ہم نے خود دیکھا ہے مطلب کا ہر اک دیوانہ تھا
باغباں یہ چار تنکے تھے پڑے رہتے کہیں
نخل ماتم پر بھی کیا بھاری مرا کاشانہ تھا
اے شب ہجراں زیادہ پاؤں پھیلاتی ہے کیوں
بھر گیا جتنا ہماری عمر کا پیمانہ تھا
ڈھونڈو تو بت بھی یہیں مل جائیں گے مرد خدا
ہم نے دیکھا ہے حرم ہی میں کہیں بت خانہ تھا
کر گیا کیوں کر بیان درد دل ان پر اثر
یہ تو اے ناطقؔ کوئی افسوں نہ تھا افسانہ تھا
غزل
بزم دنیا جس کو کہتے ہیں وہ پاگل خانہ تھا
ناطق گلاوٹھی