بیاض کہنہ میں جدت بھری تحریر رکھنی ہے
پرانی نیام میں یعنی نئی شمشیر رکھنی ہے
فصیل فکر سے گرتا ہوا مصرع اٹھانا ہے
سرہانے اب مجھے ہر دم کتاب میرؔ رکھنی ہے
مجھے تا عمر رنج قید کو محسوس کرنا ہے
مجھے تا عمر اپنے پاس یہ زنجیر رکھنی ہے
سجاؤ خواب کوئی رات کی بے رنگ آنکھوں میں
اگر باقی دلوں میں خواہش تعبیر رکھنی ہے
خودی سے بے خودی کی جنگ ہے گویا مجھے اس پل
مقابل اپنے ہی اپنی کوئی تصویر رکھنی ہے
ہمیں اپنے لہو سے دشت اک گلزار کرنا ہے
ہمیں تا حشر زندہ عظمت تکبیر رکھنی ہے
اسے دنیا کے ہر غم سے مکمل پاک تو کر لو
اگر اس دل میں بنیاد غم شبیر رکھنی ہے
غزل
بیاض کہنہ میں جدت بھری تحریر رکھنی ہے
ندیم سرسوی