EN हिंदी
بیاں ہوں بھی تو ہوں آخر کہاں جو دل کی باتیں ہیں | شیح شیری
bayan hon bhi to hon aaKHir kahan jo dil ki baaten hain

غزل

بیاں ہوں بھی تو ہوں آخر کہاں جو دل کی باتیں ہیں

عرش ملسیانی

;

بیاں ہوں بھی تو ہوں آخر کہاں جو دل کی باتیں ہیں
نہ تنہائی کی باتیں ہیں نہ یہ محفل کی باتیں ہیں

مرتب کر لیا یوں ہم نے افسانہ محبت کا
کچھ ان کے دل کی باتیں ہیں کچھ اپنے دل کی باتیں ہیں

جو ان میں پھنس گیا پھر راہ پر وہ آ نہیں سکتا
بڑے چکر کی باتیں رہبر منزل کی باتیں ہیں

تمہارا وعظ راز عشق کیا کھولے گا اے واعظ
زباں کی یہ نہیں حضرت یہ چشم و دل کی باتیں ہیں

وہ محفل سے جدا بھی ہو چکے محفل کو گرما کر
مگر محفل میں اب تک گرمئ محفل کی باتیں ہیں

زباں سے کچھ کہو صاحب مگر معلوم ہے ہم کو
تمہارے دل کی سب باتیں ہمارے دل کی باتیں ہیں

مجھے درس سکوں دیتے ہیں وہ جوش تمنا میں
ادھر طوفاں کی خواہش ہے ادھر ساحل کی باتیں ہیں

میں اپنے حال و ماضی پر بھی کچھ اے عرشؔ رو لیتا
مگر پیش نظر اس وقت مستقبل کی باتیں ہیں