EN हिंदी
بیاں اے ہم نشیں غم کی حکایت اور ہو جاتی | شیح شیری
bayan ai ham-nashin gham ki hikayat aur ho jati

غزل

بیاں اے ہم نشیں غم کی حکایت اور ہو جاتی

واصف دہلوی

;

بیاں اے ہم نشیں غم کی حکایت اور ہو جاتی
ذرا ہم خستہ حالوں کی طبیعت اور ہو جاتی

نصیحت حضرت واعظ کی سنتے بھی تو کیا ہوتا
یہی ہوتا کہ ہم کو ان سے وحشت اور ہو جاتی

بہت اچھا ہوا آنسو نہ نکلے میری آنکھوں سے
بپا محفل میں اک تازہ قیامت اور ہو جاتی

تڑپ کر دل نے منزل پر مجھے چونکا دیا ورنہ
خدا جانے کہ طے کتنی مسافت اور ہو جاتی

تمہارے نام سے ہے بیکسوں کا نام وابستہ
بلا لیتے اگر در پر تو نسبت اور ہو جاتی

بہت سستے رہے نیچی نظر سے دل لیا تم نے
اگر نظریں بھی مل جاتیں تو قیمت اور ہو جاتی

شرف بخشا ہے تم نے آج مجھ کو ہم کلامی کا
کہوں کچھ دل کی بات اتنی اجازت اور ہو جاتی

زہے قسمت نوازا ہے جواب خط سے واصفؔ کو
دکھاتے اک جھلک اتنی عنایت اور ہو جاتی