EN हिंदी
بتاؤں میں تمہیں آنکھوں میں آنسو یا لہو کیا ہے | شیح شیری
bataun main tumhein aankhon mein aansu ya lahu kya hai

غزل

بتاؤں میں تمہیں آنکھوں میں آنسو یا لہو کیا ہے

یونس غازی

;

بتاؤں میں تمہیں آنکھوں میں آنسو یا لہو کیا ہے
کبھی اے کاش تم پوچھو کہ میری آرزو کیا ہے

میں تیری آہٹیں پاتا ہوں کلیوں کے چٹکنے میں
گلستاں میں بجز جلووں کے تیرے رنگ و بو کیا ہے

اسی کو درد کہتا ہے اسی کو درد کا درماں
نہیں یہ عشق تو اے دل بتا پھر جستجو کیا ہے

صفائی پیش کرتے ہو جو اپنی توبہ شکنی کی
بتاؤ پھر تمہارے ہاتھ میں جام و سبو کیا ہے

در کعبہ ہو پائے ناز ہو سر رکھ دیا ہم نے
کہاں یہ شوق سجدہ دیکھتا ہے روبرو کیا ہے

مجھے بھی آخرش تسلیم تو اک روز کرنا ہے
اگر کچھ بھی نہیں ہوں میں تو پھر یہ تو ہی تو کیا ہے

زمانے میں تو غازیؔ نام ہے مشہور اک بے شک
مگر خود کی نظر میں پوچھئے کہ آبرو کیا ہے