EN हिंदी
بتائیں کیا عمل عشق حقیقی کا کہاں تک ہے | شیح شیری
bataen kya amal ishq-e-haqiqi ka kahan tak hai

غزل

بتائیں کیا عمل عشق حقیقی کا کہاں تک ہے

دتا تریہ کیفی

;

بتائیں کیا عمل عشق حقیقی کا کہاں تک ہے
زمیں کیا آسماں تک ہے مکاں کیا لا مکاں تک ہے

تعین سے بری ہو گر ہے لا محدود کا طالب
کہ حد ملک و دنیا تو وہیں تک ہے جہاں تک ہے

نہ ہو آزاد دور چرخ کی حلقہ بگوشی سے
ترا مرکوز دل ماؤ شما اور این و آں تک ہے

تو بسم اللہ کے گنبد میں کیا ہے معتکف زاہد
سکون خاطر مضطر حواسوں سے اماں تک ہے

پہنچ سکتا ہے کب سچی خوشی کو عیش نفسانی
کہ وہ تو آب رکنا باد و جوئے‌ مولیاں تک ہے

ہے شیخ و برہمن کے دین کی حد دیر و کعبہ تک
سواد دین عشق بے غرض کون و مکاں تک ہے

یقیں سے اور عمل سے پختگی پائی عقیدت نے
پہنچ تیری تو اے نادان بس وہم و گماں تک ہے

حقیقت حسن کی آئینہ تجھ پر کیونکہ ہو جاتی
نظر تیری تو زلف و خال و ابروئے بتاں تک ہے

جو ہیں مست الست ان کو خمار و سکر کا ڈر کیا
نگاہ تشنہ کام عشق ہی دست مغاں تک ہے

حصیر عشق کو کب دخل اس محفل میں ہے کیفیؔ
بساط اس کی فقط بین و بکا آہ و فغاں تک ہے