بستیاں ہو گئیں بے نام و نشاں راتوں رات
ایسے طوفان بھی آئے ہیں یہاں راتوں رات
جی میں آتا ہے کہ تعبیر تجھی سے پوچھیں
ہو گیا خواب ترا جسم جواں راتوں رات
شام ہنگامہ تھا خوشیاں تھیں حسیں چہرے تھے
کھو گئی محفل احباب کہاں راتوں رات
حسن جلتا رہا شمعوں کی تپاں خلوت میں
ہو گئی مشعل مہتاب دھواں راتوں رات
اک جہانگیر خموشی کی رجز خوانی ہے
ہو گیا کیا یہ مرے گھر کا سماں راتوں رات
کون ان کلیوں کی قسمت پہ نہ روئے خاطرؔ
جن کو کر دیتی ہے تقدیر جواں راتوں رات
غزل
بستیاں ہو گئیں بے نام و نشاں راتوں رات
خاطر غزنوی