EN हिंदी
بستی بستی خط گم گشتہ سا آوارہ ہوں | شیح شیری
basti basti KHat-e-gum-gashta sa aawara hun

غزل

بستی بستی خط گم گشتہ سا آوارہ ہوں

نجیب رامش

;

بستی بستی خط گم گشتہ سا آوارہ ہوں
کل کہاں کوئی مجھے روک لے میں کیا جانوں

بال بڑھ جائیں کہ انکار کی طاقت تو ملے
چاہے پھر اپنی ہی آنکھوں کی طرح بجھ جاؤں

وہ خلا ہے تو خلا بھی ہے حدوں کا قیدی
میں ہوں آزاد تو آزادی کا زندانی ہوں

زندگی مجھ کو یہ زنجیر ہوا دے کے اداس
میں پریشان کہ میں سانس لیے جاتا ہوں

سود ہونے کا ادا کرنا ہی ہے قسطوں میں
دوستو تلخ سی اک بات کہو ٹوٹ گروں

کرب سا کرب ہے بے دور و زمانہ ہونا
اس کا اک پل ہوں تو کاش اب اسے یاد آ جاؤں

قرض خواہوں کی طرح وقت! گریباں مت تھام
قہقہہ اک کہیں رکھا تھا دیے دیتا ہوں