EN हिंदी
بستہ لب تھا وہ مگر سارے بدن سے بولتا تھا | شیح شیری
basta-lab tha wo magar sare badan se bolta tha

غزل

بستہ لب تھا وہ مگر سارے بدن سے بولتا تھا

عرفی آفاقی

;

بستہ لب تھا وہ مگر سارے بدن سے بولتا تھا
بھید گہرے پانیوں کے چپکے چپکے کھولتا تھا

تھا عجب کچھ سحر ساماں یہ بھی اچرج ہم نے دیکھا
چھانتا تھا خاک صحرا اور موتی رولتا تھا

رچ رہا تھا دھیرے دھیرے مجھ میں نشہ تیرگی کا
کون تھا جو میرے پیمانے میں راتیں گھولتا تھا

ڈر کے مارے لوگ تھے دبکے ہوئے اپنے گھروں میں
ایک بادل سا دھوئیں کا بستی بستی ڈولتا تھا

کانپ کانپ اٹھتا تھا میرا میں ہی خود میرے مقابل
میں نہیں تو پھر وہ کس پر کون خنجر تولتا تھا