بسر ہونا بہت دشوار سا ہے
یہ شب جیسے کسی کی بد دعا ہے
اندھیرے موڑ پر مجھ سا ہی کوئی
نہ جانے کون ہے کیا چاہتا ہے
اک ایسا شخص بھی ہے بستیوں میں
ہمیں ہم سے زیادہ جانتا ہے
پناہیں ڈھونڈنے نکلی تھی دنیا
سوا نیزے پہ سورج آ گیا ہے
ابھی تک سرخ ہے مٹی یہاں کی
جہاں میں ہوں، وہ شاید کربلا ہے
خوشی کی لہر دوڑی دشمنوں میں
وہ شاید دوستوں میں گھر گیا ہے
کئی دن ہو گئے ہیں چلتے چلتے
خدا جانے کہاں تک راستہ ہے
غزل
بسر ہونا بہت دشوار سا ہے
امیر قزلباش