بسنت آئی ہے موج رنگ گل ہے جوش صہبا ہے
خدا کے فضل سے عیش و طرب کی اب کمی کیا ہے
بیاں میں کیا کروں اس کے شبستاں کا تعالی اللہ
قضا و قدر جس کے جشن کا اب کار فرما ہے
سخاوت میں کوئی ہم سر نہ ہو اس کا زمانہ میں
وہی کرتا ہے پورا جس کے دل میں جو ارادہ ہے
خضر کی عمر ہو اس کی تصدق سے ائمہ کے
نظام الدولہ آصف جاه جو سب کا مسیحا ہے
بہی خوان کرم سے ہے صدا امید چنداؔ کو
کسی کی بھی نہ ہو محتاج تم سے یہ تمنا ہے
غزل
بسنت آئی ہے موج رنگ گل ہے جوش صہبا ہے
ماہ لقا چنداؔ