بصارتوں پہ بھنور انکشاف کرتا ہے
کہ بلبلے کا سمندر طواف کرتا ہے
عجیب بھول بھلیاں ہے جستجو خود کی
ہر ایک نقش قدم انحراف کرتا ہے
مزا تو جب ہے کہ ہم اس کو نا خدا کر لیں
ہوا کا رخ جو ہمارے خلاف کرتا ہے
جسے گناہ کی توفیق ہی نہ ہو تا عمر
اسے خدا نہ زمانہ معاف کرتا ہے
لہو کی مار سے بچئے کہ جوش میں آئے
تو قطرہ قطرہ بدن میں شگاف کرتا ہے
بلا سے رنگ تغزل مری غزل میں نہیں
نکیلا لہجہ گھٹن کو تو صاف کرتا ہے
غزل
بصارتوں پہ بھنور انکشاف کرتا ہے
مظفر حنفی