بس یہ ہوا کہ رشتوں کے سب ہاتھ کٹ گئے
ہم لوگ اپنے آپ ہی آپس میں بٹ گئے
آثار ممکنات تھے جتنے وہ گھٹ گئے
سورج نکل کے آیا تو کہرے بھی چھٹ گئے
یہ بزدلی تھی اپنی کہ کچھ بھی نہیں کہا
ہونے دیا جو ہونا تھا رستے سے ہٹ گئے
ان سے تو جا کے ملنا بھی دشوار ہو گیا
مصروفیت کے نام پہ ہم بھی سمٹ گئے
ہم کیا کہیں کہ کیسے حماقت یہ ہو گئی
جو تھا سبق بھلانے کا اس کو بھی رٹ گئے
دیوار و در سے اب بھی رفاقت وہی رہی
تنہائیوں میں آئے تو ان سے لپٹ گئے
خورشیدؔ اس پہ سوچئے کس کا قصور ہے
آسودگی کے لمحے بھی آ کر پلٹ گئے

غزل
بس یہ ہوا کہ رشتوں کے سب ہاتھ کٹ گئے
خورشید سحر