EN हिंदी
بس یہی تو مدعا ہے آپ کے ارشاد کا | شیح شیری
bas yahi to muddaa hai aap ke irshad ka

غزل

بس یہی تو مدعا ہے آپ کے ارشاد کا

مرلی دھر شاد

;

بس یہی تو مدعا ہے آپ کے ارشاد کا
شادؔ کس نے نام رکھا عاشق ناشاد کا

لیجئے حاضر ہے نذرانہ دل ناشاد کا
ٹالنا آساں نہ تھا کچھ آپ کے ارشاد کا

برق سمجھا ہے جسے سارا زمانہ دیکھیے
آسماں پر چڑھ گیا لچھا مری فریاد کا

حشر سے عشق نہاں کی اور شہرت ہو گئی
ایک عالم قصہ خواں نکلا مری روداد کا

بے تعلق ہو کے رہنا باغ عالم میں محال
پا بہ گل ہونا تو دیکھو سرو سے آزاد کا

باغباں صیاد گلچیں سب کے سب دیکھا کئے
آشیاں اجڑا کیا اک خانماں برباد کا

ترک الفت پر جو میں زندہ رہا گھبرا گئے
ڈھونڈتے ہیں اب نیا پہلو کوئی بیداد کا

ذکر دشمن پر مجھے جھٹلانے والے پھر تو کہہ
تم ہو مضطر کیا بھروسہ ہے تمہاری یاد کا

گرمئ داغ جگر سے موم ہو کر بہہ گیا
تم اسی خنجر کو سمجھے تھے کہ ہے فولاد کا

آنکھ سے کچھ ہو اشارہ کچھ تبسم لب پہ ہو
شادؔ کرنا کچھ نہیں مشکل دل ناشاد کا

تیری سب سنتے ہیں میری کوئی سنتا ہی نہیں
کس سے روؤں جا کے اب دکھڑا تری بیداد کا

شادؔ یکتائے جہاں ہے آپ کے سر کی قسم
دیکھ لینا جانشیں ہوگا یہی استاد کا