EN हिंदी
بس اسی کا سفر شب میں طلب گار ہے کیا | شیح شیری
bas usi ka safar-e-shab mein talabgar hai kya

غزل

بس اسی کا سفر شب میں طلب گار ہے کیا

حامدی کاشمیری

;

بس اسی کا سفر شب میں طلب گار ہے کیا
تو ہی اے ماہ مرا ہم دم و غم خوار ہے کیا

تیشہ در دست امنڈ آئی ہے آبادی تمام
سب یہی کہتے ہیں دیکھیں پس دیوار ہے کیا

ہاں اسی لمحے میں ہوتا ہے ستاروں کا نزول
شہر خوابیدہ میں کوئی دل بیدار ہے کیا

جسم تو جسم ہے مجروح ہوئی ہے جاں بھی
اپنوں کے ہوتے ہوئے شکوۂ اغیار ہے کیا

تھرتھری پتوں پہ ہے درد بجاں ہیں کلیاں
تو بھی اے باد سحر درپئے آزار ہے کیا

لب ہلانے کی سکت ہے نہ قدم اٹھتے ہیں
سامنے جو بھی ہے دلدل میں گرفتار ہے کیا