EN हिंदी
بس تیرے لیے اداس آنکھیں | شیح شیری
bas tere liye udas aankhen

غزل

بس تیرے لیے اداس آنکھیں

غالب ایاز

;

بس تیرے لیے اداس آنکھیں
اف مصلحت نا شناس آنکھیں

بے نور ہوئی ہیں دھیرے دھیرے
آئیں نہیں مجھ کو راس آنکھیں

آخر کو گیا وہ کاش رکتا
کرتی رہیں التماس آنکھیں

خوابیدہ حقیقتوں کی ماری
پامال اور بدحواس آنکھیں

درپیش جنوں کا مرحلہ اور
فاقہ ہے بدن تو پیاس آنکھیں