بس روح سچ ہے باقی کہانی فریب ہے
جو کچھ بھی ہے زمینی زمانی فریب ہے
رنگ اپنے اپنے وقت پہ کھلتے ہیں آنکھ پر
اول فریب ہے کوئی ثانی فریب ہے
سوداگران شعلگیٔ شر کے دوش پر
مشکیز گاں سے جھانکتا پانی فریب ہے
اس گھومتی زمیں پہ دوبارہ ملیں گے ہم
ہجرت فرار نقل مکانی فریب ہے
دریا کی اصل تیرتی لاشوں سے پوچھیے
ٹھہراؤ ایک چال روانی فریب ہے
اب شام ہو گئی ہے تو سورج کو روئیے
ہم نے کہا نہ تھا کہ جوانی فریب ہے
بار دگر سمے سے کسی کا گزر نہیں
آئندگاں کے حق میں نشانی فریب ہے
علم اک حجاب اور حواس آئنے کا زنگ
نسیان حق ہے یاد دہانی فریب ہے
تجسیم کر کہ خواب کی دنیا ہے جاوداں
تسلیم کر کہ عالم فانی فریب ہے
شاہدؔ دروغ گوئی گلزار پر نہ جا
تتلی سے پوچھ رنگ فشانی فریب ہے
غزل
بس روح سچ ہے باقی کہانی فریب ہے
شاہد ذکی