بس لمحے بھر میں فیصلہ کرنا پڑا مجھے
سب چھوڑ چھاڑ گھر سے نکلنا پڑا مجھے
جب اپنی سر زمین نے مجھ کو نہ دی پناہ
انجان وادیوں میں اترنا پڑا مجھے
پاؤں میں آبلے تھے تھکن عمر بھر کی تھی
رکنا تھا بیٹھنا تھا پہ چلنا پڑا مجھے
اپنی پرکھ کے واسطے طوفاں کے درمیاں
مضبوط کشتیوں سے اترنا پڑا مجھے
تیری انا کے ہاتھ میں تھے تیرے فیصلے
تو تو بدل نہ پایا بدلنا پڑا مجھے
بے انتہا تضاد تھا دونوں کی سوچ میں
کچھ یوں بھی راستے کو بدلنا پڑا مجھے
یہ بھی ہوا کہ بادل نا خواستہ کبھی
زندہ حقیقتوں سے مکرنا پڑا مجھے
یکجا رہا اک عمر مگر تیری دید کو
مانند مشت خاک بکھرنا پڑا مجھے
آغاز اپنے بس میں نہ انجام ہی عدیلؔ
اک زندگی گزار کے مرنا پڑا مجھے
غزل
بس لمحے بھر میں فیصلہ کرنا پڑا مجھے
عدیل زیدی