بس کہ پابندی آئین وفا ہم سے ہوئی
یہ اگر کوئی خطا ہے تو خطا ہم سے ہوئی
زندگی تیرے لیے سب کو خفا ہم نے کیا
اپنی قسمت ہے کہ اب تو بھی خفا ہم سے ہوئی
رات بھر چین سے سونے نہیں دیتی ہم کو
اتنی مایوس تری زلف رسا ہم سے ہوئی
سر اٹھانے کا بھلا اور کسے یارا تھا
بس ترے شہر میں یہ رسم ادا ہم سے ہوئی
بارہا دست ستم گر کو قلم ہم نے کیا
بارہا چاک اندھیرے کی قبا ہم سے ہوئی
ہم نے اتنے ہی سر راہ جلائے ہیں چراغ
جتنی برگشتہ زمانے کی ہوا ہم سے ہوئی
بار ہستی تو اٹھا اٹھ نہ سکا دست سوال
مرتے مرتے نہ کبھی کوئی دعا ہم سے ہوئی
کچھ دنوں ساتھ لگی تھی ہمیں تنہا پا کر
کتنی شرمندہ مگر موج بلا ہم سے ہوئی

غزل
بس کہ پابندی آئین وفا ہم سے ہوئی
خلیلؔ الرحمن اعظمی