بسکہ دشوار ہے اس شخص کا چہرا لکھنا
ورنہ مشکل تو نہیں کوئی سراپا لکھنا
یہ بھی ممکن ہے کہ تحریر بدل دی جائے
دوستو اپنا بیاں خون سے پختہ لکھنا
کچھ ہمیں سیر و تماشا سے نہیں دلچسپی
شغل بس اپنا ہے تنہائی میں پڑھنا لکھنا
دل کا دروازہ تمہارے لئے وا رکھیں گے
لوٹ آنے کا کبھی ہو جو ارادہ لکھنا
بھیج تو سکتے ہو تم لکھ کے شکایت ان کو
شرط بس یہ ہے کہ کوئی لفظ نہ چبھتا لکھنا
لوگ اسناد کے کشکول لیے پھرتے ہیں
کتنا بے سود ہے اس دور میں پڑھنا لکھنا
کیسے دیوانے ہیں لکھتے ہوئے تھکتے ہی نہیں
ایک ہی لفظ کو سیدھا کبھی الٹا لکھنا
پاس تہذیب تو کچھ پاس قلم ہے ہم کو
ورنہ آتا ہے ہمیں جیسے کو تیسا لکھنا
لوگ جب لکھ کے سیہ کر گئے دیواریں تک
کون پڑھتا ہے بھلا ریت پہ میرا لکھنا
سر میں سودا تھا عجب لکھ گیا اس کو کیا کچھ
دل نے سمجھایا بہت تھا کہ نہ ایسا لکھنا
یاد کیا رکھتا کہ وہ زود فراموش بھی تھا
میں بھی کچھ بھول گیا اس کو تقاضا لکھنا
لکھتے ہی جائیں گے ہم ان کو عریضے محسنؔ
وہ پڑھیں یا نہ پڑھیں کام ہے اپنا لکھنا
غزل
بسکہ دشوار ہے اس شخص کا چہرا لکھنا
محسن زیدی