بسکہ دیدار ترا جلوۂ قدوسی ہے
دامن وصل بھی آلودۂ مایوسی ہے
ہے کہاں بوئے وفا اس دہن شیریں میں
غنچہ لب تیری زباں ہم نے بہت چوسی ہے
یار گو خون مرا مثل حنا ہو پامال
لیکن اپنے تئیں منظور قدم بوسی ہے
دل مرا خاک شگفتہ ہو چمن میں جا کر
گل میں یہ رنگ کہاں ایک تری بو سی ہے
ایک دن زلف کے منہ پر نہ چڑھی یہ کافر
یاد کاکل کو فقط شیوۂ جاسوسی ہے
وہ سجی تیغ کہ دم میں کرے لاکھوں کو قتل
کون کہتا ہے میاں تیری کمر مو سی ہے
شیخ روتا ہے اسے سن کے برہمن یکسو
پر اثر بس کہ مرا نالۂ ناقوسی ہے
چشم نمناک نے از بسکہ بجھایا اس کو
آتش عشق کہاں دل میں مگر لو سی ہے
اے فغاںؔ عشق کہاں دل میں بقول منتؔ
ہاں یہ سچ ملنے کی خوباں سے تو اک خو سی ہے
غزل
بسکہ دیدار ترا جلوۂ قدوسی ہے
اشرف علی فغاں