بس کہ چوں بدر زمانہ یہ گھٹاتا ہے مجھے
دن بدن اور ہی عالم نظر آتا ہے مجھے
حسن نیرنگی عالم کا عجب رنگ سے کچھ
عین نیرنگی میں سو رنگ دکھاتا ہے مجھے
اتنا معلوم تو ہوتا ہے کہ جاتا ہوں کہیں
کوئی ہے مجھ میں کہ مجھ سے لئے جاتا ہے مجھے
یاد میں کس کی کروں مجھ کو کہاں ہوش و حواس
اپنی ہی یاد سے یہ عشق بھلاتا ہے مجھے
طرفہ عالم ہے کہ ہر ایک سے وہ مایہ ناز
آپ رہتا ہے الگ اور بھڑاتا ہے مجھے
چھوڑ کر مجھ کو وہ تنہا کوئی جاتا ہے کہیں
یہ بھی اک چھیڑ ہے اس کو کہ کڑھاتا ہے مجھے
مجھ کو کیوں کھینچے لئے جائے ہے تقصیر مری
عمر ٹک رہ تو سہی کون بلاتا ہے مجھے
مجھ میں اور دل میں سدا ہے سبق عشق کا درس
میں سناتا ہوں اسے اور وہ سناتا ہے مجھے
میرے ناخونوں میں میں تجھ سے کئے چار ابرو
اپنی کیا تیغ سے ہر دم تو ڈراتا ہے مجھے
طائر رنگ حنا ہوں تو لگوں تیرے ہاتھ
چٹکیوں میں تو عبث یار اڑاتا ہے مجھے
تجھ کو منظور جفا مجھ کو ہے مطلوب وفا
نہ یہ بھاتا ہے تجھے اور نہ وہ بھاتا ہے مجھے
جو مری چڑھ ہے اسی بات کا ہے تجھ کو ذوق
آہ تو دیدہ و دانستہ کھجاتا ہے مجھے
پھر پھر آئینہ میں منہ دیکھنے لگتا ہے حسنؔ
ایک دم آپ میں وہ شوخ جو پاتا ہے مجھے
غزل
بس کہ چوں بدر زمانہ یہ گھٹاتا ہے مجھے
میر حسن