EN हिंदी
بس اک خطا کی مسلسل سزا ابھی تک ہے | شیح شیری
bas ek KHata ki musalsal saza abhi tak hai

غزل

بس اک خطا کی مسلسل سزا ابھی تک ہے

رئیس صدیقی

;

بس اک خطا کی مسلسل سزا ابھی تک ہے
مرے خلاف مرا آئینہ ابھی تک ہے

سبھی چراغ اندھیروں سے مل گئے لیکن
حریف موج ہوا اک دیا ابھی تک ہے

مٹا سکے نہ اسے حادثوں کے دریا بھی
وہ ایک نام جو دل پر لکھا ابھی تک ہے

گری ہے میری جو دستار غم ہوا لیکن
یہ شکر کرتا ہوں بند قبا ابھی تک ہے

نظر اٹھا کے کہا مے کدے میں ساقی نے
وہ کون ہے جو یہاں پارسا ابھی تک ہے

نہ جانے کون سے صدموں کا شور تھا اس میں
گزر چکا وہ ادھر سے صدا ابھی تک ہے