EN हिंदी
بس ہو چکا حضور یہ پردے ہٹائیے | شیح شیری
bas ho chuka huzur ye parde haTaiye

غزل

بس ہو چکا حضور یہ پردے ہٹائیے

اقبال عظیم

;

بس ہو چکا حضور یہ پردے ہٹائیے
سب منتظر ہیں سامنے تشریف لائیے

آواز میں تو آپ کی بے شک خلوص ہے
لیکن ذرا نقاب تو رخ سے ہٹائیے

ہم مانتے ہیں آپ بڑے غم گسار ہیں
لیکن یہ آستین میں کیا ہے دکھائیے

اب قافلے کے لوگ بھی منزل شناس ہیں
آخر کہاں کا قصد ہے کھل کر بتائیے

بادہ کشوں کی اصل جگہ میکدے میں ہے
کس نے کہا کہ آپ بھی منبر پہ آئیے