بس ایک وقت کا خنجر مری تلاش میں ہے
جو روز بھیس بدل کر مری تلاش میں ہے
یہ اور بات کہ پہچانتا نہیں ہے مجھے
سنا ہے ایک ستم گر مری تلاش میں ہے
ادھورے خوابوں سے اکتا کے جس کو چھوڑ دیا
شکن نصیب وہ بستر مری تلاش میں ہے
یہ میرے گھر کی اداسی ہے اور کچھ بھی نہیں
دیا جلائے جو در پر مری تلاش میں ہے
عزیز ہوں میں مجھے کس قدر کہ ہر اک غم
تری نگاہ بچا کر مری تلاش میں ہے
میں ایک قطرہ ہوں میرا الگ وجود تو ہے
ہوا کرے جو سمندر مری تلاش میں ہے
وہ ایک سایہ ہے اپنا ہو یا پرایا ہو
جنم جنم سے برابر مری تلاش میں ہے
میں دیوتا کی طرح قید اپنے مندر میں
وہ میرے جسم سے باہر میری تلاش میں ہے
میں جس کے ہاتھ میں اک پھول دے کے آیا تھا
اسی کے ہاتھ کا پتھر میری تلاش میں ہے
وہ جس خلوص کی شدت نے مار ڈالا نورؔ
وہی خلوص مقرر مری تلاش میں ہے
غزل
بس ایک وقت کا خنجر مری تلاش میں ہے
کرشن بہاری نور