بس ایک پردۂ اغماض تھا کفن اس کا
لہولہان پڑا تھا برہنہ تن اس کا
نہ یہ زمین ہوئی اس کے خون سے گل نار
نہ آسماں سے اتارا گیا کفن اس کا
رم نجات بس اک جنبش ہوا میں تھا
کہ نقش آب کو ٹھہرا دیا بدن اس کا
لہکتے شعلوں میں گو راکھ ہو چکے اوراق
ہوا چلی تو دمکنے لگا سخن اس کا
گھسیٹتے ہوئے خود کو پھرو گے زیبؔ کہاں
چلو کہ خاک کو دے آئیں یہ بدن اس کا
غزل
بس ایک پردۂ اغماض تھا کفن اس کا
زیب غوری