EN हिंदी
بس ایک پردۂ اغماض تھا کفن اس کا | شیح شیری
bas ek parda-e-ighmaz tha kafan us ka

غزل

بس ایک پردۂ اغماض تھا کفن اس کا

زیب غوری

;

بس ایک پردۂ اغماض تھا کفن اس کا
لہولہان پڑا تھا برہنہ تن اس کا

نہ یہ زمین ہوئی اس کے خون سے گل نار
نہ آسماں سے اتارا گیا کفن اس کا

رم نجات بس اک جنبش ہوا میں تھا
کہ نقش آب کو ٹھہرا دیا بدن اس کا

لہکتے شعلوں میں گو راکھ ہو چکے اوراق
ہوا چلی تو دمکنے لگا سخن اس کا

گھسیٹتے ہوئے خود کو پھرو گے زیبؔ کہاں
چلو کہ خاک کو دے آئیں یہ بدن اس کا