بس ایک جسم ایک ہی قد میں پڑا رہوں
بے حد ہوں میں تو کیوں کسی حد میں پڑا رہوں
صبح ازل ہے کب سے مرے انتظار میں
جی چاہتا ہے طاق ابد میں پڑا رہوں
اک روز تنگ آ کے مجھے سوچنا پڑا
کب تک میں اپنی صحبت بد میں پڑا رہوں
آگے نکلتا جاتا ہوں میں اپنے آپ سے
اب در گزر کروں کہ حسد میں پڑا رہوں
بے سود ہو گیا ہوں تو حاصل کہاں گیا
اے اصل زر میں کون سی مد میں پڑا رہوں
غزل
بس ایک جسم ایک ہی قد میں پڑا رہوں
انجم سلیمی