EN हिंदी
بس ایک بھول کی بھرپائیوں سے لڑتا رہا | شیح شیری
bas ek bhul ki bharpaiyon se laDta raha

غزل

بس ایک بھول کی بھرپائیوں سے لڑتا رہا

معراج نقوی

;

بس ایک بھول کی بھرپائیوں سے لڑتا رہا
تمام عمر میں رسوائیوں سے لڑتا رہا

تمام عمر اجالوں کے مثل میرا عروج
مرے زوال کی گہرائیوں سے لڑتا رہا

مرے وجود پہ غالب تھا رات ایک بدن
تمام رات میں انگڑائیوں سے لڑتا رہا

حصار شب میں وہ تنہا کسی مجاہد سا
کوئی بدن تھا جو پرچھائیوں سے لڑتا رہا

حسین یادوں کی اک انجمن سجاتا رہا
میں تیرے بعد یوں تنہائیوں سے لڑتا رہا