بس ایک بار فقط ایک بار کم سے کم
سوا مرا ہو ترا اختیار کم سے کم
ہر ایک رنگ تجھے ڈھانپ دوں گا سر تا پا
تری ہر ایک کا بدلہ ہزار کم سے کم
نہ ساتھ ساتھ سہی اتنی دور بھی تو نہ جا
اجاڑ مت مرے قرب و جوار کم سے کم
ہے اتفاق کہ انسان نکلے دونوں ہی
حضور والا بہت خاکسار کم سے کم
یوں اپنی ساکھ بچائی کیا اسے عریاں
کہ اپنا شیوہ نہیں تو تکار کم سے کم
سبھی ہیں رام بھروسے خدا کی بستی میں
کوئی تو خود پہ کرے انحصار کم سے کم
شکست پر کوئی نوحہ نہ فتح پر نعرہ
نہ زندگی سے ہو اتنا فرار کم سے کم
غزل
بس ایک بار فقط ایک بار کم سے کم
شمیم عباس