EN हिंदी
بس دکھا دے راہ مے خانہ کوئی | شیح شیری
bas dikha de rah-e-mai-KHana koi

غزل

بس دکھا دے راہ مے خانہ کوئی

اشوک ساہنی ساحل

;

بس دکھا دے راہ مے خانہ کوئی
لے چلے یا سوئے ویرانہ کوئی

کیا ملا فرزانوں میں رہ کر مجھے
ان سے تو بہتر ہے دیوانہ کوئی

رہ‌ گذار شوق کا ہے یہ کرم
ہو گیا اپنا ہی بیگانہ کوئی

آج کے حالات پر لکھوں تو کیا
گر لکھوں سمجھو گے افسانہ کوئی

میں ہوں اور تنہائیوں کا دشت ہے
درد کو میرے نہیں جانا کوئی

میں نے بھی سیکھا ہے دنیا سے بہت
سیکھے مجھ سے بھی تو غم کھانا کوئی

کہتے ہیں ساحلؔ سے اکثر مہرباں
ہے غزل یا حرف رندانہ کوئی