بس اور کیا کہوں اس سلسلہ میں توبہ ہے
مجھے جو پہنچا ہے دکھ دوستوں سے پہنچا ہے
مرے وجود سے حیرت میں ہے مفسر عقل
وہ راز ہوں جو نہ مستور ہے نہ افشا ہے
مجھے حیات سے ہے اس لیے بھی دلچسپی
یہ ایک دن کا نہیں عمر بھر کا سودا ہے
وہ تیرے لطف تبسم کی نغمگی اے دوست
کہ جیسے قوس قزح پر ستار بجتا ہے
یہ زندگانی عبارت خلش سے ہے یعنی
خلش جو ہے تو چمن ہے نہیں تو صحرا ہے
ہیں تیری عشوہ گری کے یہ مختلف پہلو
کلیسا کیا ہے حرم کیا ہے بت کدہ کیا ہے
نظیرؔ قصۂ زخم نہاں کہوں کس سے
یہ داستان الم سخت روح فرسا ہے
غزل
بس اور کیا کہوں اس سلسلہ میں توبہ ہے
نظیر مظفرپوری