بس اپنے خواب سے تعبیر کا سامان لیتے ہیں
وہ سب انجان ہیں کہتے جو ہیں ہم جان لیتے ہیں
یہی کہہ دے تری گلیوں کی ہم نے خاک چھانی ہے
ترے دفتر سے وہ ایوان کے دیوان لیتے ہیں
ہوا کی موج میں رہ رہ کے آہٹ تیری ملتی ہے
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
اندھیری رات سے محفوظ رہنا ہم نے سیکھا ہے
ٹکی ہے کہکشاں جس میں وہ چادر تان لیتے ہیں
کہیں ایسا نہ ہو ہم چھوڑ دیں انسان کا قالب
نہ دینا اے خدا وہ رزق جو حیوان لیتے ہیں
غزل
بس اپنے خواب سے تعبیر کا سامان لیتے ہیں
مہدی جعفر