برتر سماج سے کوئی فن کار بھی نہیں
فن کار کیا جو صاحب کردار بھی نہیں
ہر چند جاں بلب ہیں ستم سے شریف لوگ
لڑنے کو ظلم سے کوئی تیار بھی نہیں
نسل جواں سوار ہے خوابوں کی ناؤ میں
اس پر ستم کہ ہاتھ میں پتوار بھی نہیں
کھوٹا ٹکا ہوں پھر بھی کبھی کام آؤں گا
مجھ کو نہ پھینک اتنا میں بے کار بھی نہیں
اردو زبان کی میں وہ کہنہ کتاب ہوں
جس کا وطن میں کوئی خریدار بھی نہیں
ہم اے شبابؔ ایسے مقدر کا کیا کریں
خوابیدہ جو نہیں ہے تو بیدار بھی نہیں
غزل
برتر سماج سے کوئی فن کار بھی نہیں
شباب للت