EN हिंदी
برسوں جنوں صحرا صحرا بھٹکاتا ہے | شیح شیری
barson junun sahra sahra bhaTkata hai

غزل

برسوں جنوں صحرا صحرا بھٹکاتا ہے

شارق کیفی

;

برسوں جنوں صحرا صحرا بھٹکاتا ہے
گھر میں رہنا یوں ہی نہیں آ جاتا ہے

پیاس اور دھوپ کے عادی ہو جاتے ہیں ہم
جب تک دشت کا کھیل سمجھ میں آتا ہے

عادت تھی سو پکار لیا تم کو ورنہ
اتنے کرب میں کون کسے یاد آتا ہے

موت بھی اک حل ہے تو مسائل کا لیکن
دل یہ سہولت لیتے ہوئے گھبراتا ہے

اک تم ہی تو گواہ ہو میرے ہونے کے
آئینہ تو اب بھی مجھے جھٹلاتا ہے

اف یہ سزا یہ تو کوئی انصاف نہیں
کوئی مجھے مجرم ہی نہیں ٹھہراتا ہے

کیسے کیسے گناہ کئے ہیں خوابوں میں
کیا یہ بھی میرے ہی حساب میں آتا ہے