برسوں جو نظر طوفانوں کے آغوش میں پلتی رہتی ہے
اس مست نظر کی ہر جنبش افسانے اگلتی رہتی ہے
جو ترک طلب سے پہلے تھا دل کا وہی عالم آج بھی ہے
آئینہ نہیں بدلا جاتا تصویر بدلتی رہتی ہے
جی بھر کے اسے دیکھا لیکن اب تک یہ نظر بھرتی ہی نہیں
معصوم ادا میں رہ رہ کر اک بات نکلتی رہتی ہے
تو میرے جنوں سے نالاں ہے اس پر تو نظر کر اے ناصح
وہ زلف خود اپنے حلقوں کے انداز بدلتی رہتی ہے
مے خانہ فریدیؔ کیا جانے کس کو نہ ملی کس نے پی لی
ساغر ہیں کہ چلتے رہتے ہیں صہبا ہے کہ ڈھلتی رہتی ہے
غزل
برسوں جو نظر طوفانوں کے آغوش میں پلتی رہتی ہے
مغیث الدین فریدی