برسوں ہوئے اس سے نہ کوئی بات ہوئی رات
تو نے بھی نہ کی اپنی کوئی جادوگری رات
گم ہو گئی امید ملاقات سحر میں
یہ تو نے مرے ساتھ عجب چال چلی رات
وہ لے گیا ساتھ اپنے اجالے مرے دل کے
کاٹے نہ کٹی ہم سے جو تھی درد بھری رات
اشکوں سے کہا میں نے جدائی کا فسانہ
اس پر یہ کہا اس نے کہ آئے گی نئی رات
شکوہ مرے اور اس کا بتانا اسے الزام
کچھ طے نہ ہوا اور یونہی بیت گئی رات
جو میرے تصور میں تھا ہنگامۂ محشر
اس کے لیے مخصوص ہوئی وصل کی ہی رات
اس میں ہی تو ہے چاند ستاروں کا مقدر
اک خال سیہ تاب کی ہے جلوہ گری رات
جس رات کبھی کوئی میرے ساتھ رہا تھا
آ جائے سہیلؔ آج دعا ہے کی وہی رات
غزل
برسوں ہوئے اس سے نہ کوئی بات ہوئی رات
سہیل کاکوروی